فاطمی خلافت کے پانچویں حکمران جن کا دور فاطمی خلافت کا بہترین دور مانا جاتا ہے
العزیز بااللہ فاطمی خلافت کے پانچویں حکمران تھے۔جن کے 21 سالہ دورِحکومت کو تاریخ دانوں نے فاطمیوں کے پونے 3سو سالہ دور کا عہدِ زریں قرار دیا ہے۔ العزیز بااللہ کا اصل نام نزار تھا۔ان کے والد المعز ادین بھی فاطمی خلیفہ تھے۔انہوں نے 22 برس کامیابی کے ساتھ حکومت کی تھی۔انہیں فاطمی اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس سلسلے کے بانی عبید اللہ،آنحضرتؐ کی صاحبزادی بی بی فاطمہ الزہرا کی اولاد میں سے تھے۔ فاطمی سلسلے کو پونے 3 سو سالہ دور میں دو ایسے خلفا ملے جن کا عہد، علمی اور تمدنی ترقی اور خوشحالی کے اعتبار سے نہایت تابناک تھا۔
العزیز بااللہ کے دور میں پوراشام،حجاز،یمن،حلب اورشیزر فاطمی حکومت میں شامل ہو چکے تھے۔
العزیز بااللہ کے والد المعز لدین بااللہ کے دور میں ، 360ھ بمطابق971عیسویٰ میں دمشق فتح ہو گیا تھا۔ لیکن 364ھ بمطابق974عیسویٰ مین ایک ترک سردار الپ تکین نے دمشق پر قبضہ کر لیا۔ الپ تکین آل بویہ کے حکمران معز الدولہ کے غلام تھے۔ معزالدولہ مشہور حکمران عضد الدولہ کے والد تھے۔ تاریخی کتب میں الپ تکین کا نام امتکین بھی لکھا گیا ہے۔عضد الدولہ کے زمانے میں الپ تکین کو ترک فوج کا سپہ سالار بنایا گیا تھا۔ کچھ تنازعات کی وجہ سے وہ شام چلے گئے تھے۔
الپ تکین نے پہلے ساحل شام پر واقع صیدا(اب صیدون) کا محاصرہ کیا۔اس جنگ میں ہزاروں مصری کام آئے۔ الپ تکین نے صیدا فتح کر نے کے بعد عکہ اور پھر طبریہ کا رخ کیا۔ اس کے بعد دمشق کی طرف بڑھے،اور اس پر بھی قبضہ کر لیا۔المعز نے الپ تکین کو دمشق سے بے دخل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے،11 ربیع الآخر 365ھ/بمطابق18 دسمبر 975 عیسویٰ کو المعز بااللہ کا انتقال ہو گیا۔ان کے بعد ان کے بیٹے العزیزبااللہ کو خلیفہ بنایا گیا۔ان کی باقاعدہ جانشینی کا اعلان 10 ذی الحجہ 365 عیسویٰ /بمطابق 9آگست 976عیسویٰ کو کیا گیا۔
خلافت کی زمہ داری سنبھالنے کے بعد انہوں نے دمشق کی طرف توجہ دی جہاں الپ تکین قابض تھا۔ انہوں نے اپنے وزیر یعقوب ابن کلس سے مشورہ کیا کہ جوہر کاتب کو فوج دے کر دمشق بھیجا جائے۔۔جوہر کاتب،جوہر صقلی بھی کہلاتے تھے۔"کاتب"اس زمانے میں ایک عہدہ ہوتا تھا۔ جو العزیز کے والد المعز نے قائم کیا تھا۔ مصر پر فاطمیوں کی فتح اور وہاں کے نظم و نسق کو عمدہ خطوط پر استوار کرنے میں جوہر کا بڑا ہاتھ تھا۔العزیز نے خلافت کا منسب سنبھالنے کے بعد جو ہر کو فوجی امور کا نگران مقرر کر دیا تھا کیونکہ وہ اس امور کے ماہر تھے۔
جوہر نے حکم ملتے ہی تیاری کی اور فوجوں کو لے کر دمشق چلے گئے۔یہ ذی قعدہ 367ھ/بمطابق جون 978عیسویٰ کی بات ہے، کہ جوہر کی فوج نے دمشق کا محاصرہ کر لیا۔ کہ محاصرہ 2 ماہ جاری رہا۔ اس دوران بے شمار جھڑپیں ہوئیں۔جس میں دونوں فوجوں کا جانی نقصان ہوا۔ آخر الپ تکین نے فاطمیوں کے خلاف قرامطہ سے رابطہ کیا۔حسن بن احمد قرمطی کو بحرین کے شہر سے بلوایا گیااور قرامطہ کا 50 ہزار سپاہیوں پر مشتمل لشکر آ پہنچا۔جوہر نے یہ دیکھ کر دمشق کا محاصرہ اٹھا لیا۔ اور پسپائ اختیار کی لیکن قرامطیوں نے ان کا تعاقب جاری رکھااور فاطمی فوج کو انہوں نے رملہ کے قریب گھیر لیا،جوہر عسقلان چلے گئے،قرامطہ نے ان کا تعاقب کیااور مجبور ہو کر جوہر نے ان سے صلح کی بات شروع کی جس کے نتیجے میں انہیں دمشق سے عسقلان(فلسطین کے جنوبی ساحل پر ایک شہر) تک کا علاقہ الپ تکین کے حوالے کرنا پڑا۔اس کے بعد جوہر مصر چلئے گئے۔
العزیز بااللہ اپنی فوج کی پسپائ سے بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے بذات خود جا کر الپ تکین کی سر کوبی کا فیصلہ کیا۔جنگی تیاریا شروع کر دی گئیں۔محرم368ھ/بمطابق آگست 978 عیسویٰ میں العزیز کی فوج نے دمشق پر چڑھاے کر دی۔ العزیز نے الپ تکین کو پیغام بھیجا کہ آپ فاطمیوں کی اطاعت قبول کر لیں لیکن الپ تکین نے صاف انکار کر دیا۔ اس پر زبر دست جنگ ہوئ،باوجود اس کے کہ الپ تکین کی مدد کے لیے قرامطہ موجود تھے ،فاطمی لشکر نے فتح حاصل کی۔ الپ تکین نے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن گرفتار کر لیئے گئے۔ اس کے بعد العزیز نے اس کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔وہ الپ تکین کو واپس مصر لے گئے جہاں انہوں نے اسے اپنا حاجب(ایک اہم عہدہدار) بنایا ۔انہوں نے اس کے ساتھیوں کو بھی اپنی حکومت میں ملازمتیں دیں۔
الپ تکین نے دمشق میں اپنا نائب قسام کو مقرر کیا ہوا تھا اب دمشق میں وہی حکومت کرنے لگا تھا۔ اور اس نے فاطمی حکومت کی مخالفت شروع کر دی العزیز نے فضل بن صالح کی سر کر دگی میں ایک لشکر روانہ کیا ،لیکن یہ لشکر قسام سے دمشق واپس لینے مین ناکام ہو گیا۔ایک اور لشکر سلیمان بن جعفر کی سرکردگی میں روانہ ہوا لیکن قسام کی فوج اس لشکر پر بھی غالب آگئی۔ آخر 376ھ/بمطابق982عیسویٰ میں العزیز نے ایک تُرک سپہ سالار یلتکین کو فوج دے کر بھیجا،یلتکین کا نام تاریخ دانوں نے بلتکین بھی لکھا ہے۔
اس سے قبل 370ھ/بمطابق 980عیسویٰ میں مفرج بن دغفل نے فلسطین میں بغاوت برپا کر رکھی تھی۔ جو کہ وہاں کے والی تھے۔ العزیز کے حکم پر یلتکین نے فلسطین جا کر اس بغاوت کو ختم کیا تھا۔ مفرج انطاکیہ فرار ہو گئے جہاں انہوں نے بازنطینیوں(رومیوں) کی پناہ لے لی۔
یلتکین نے دمشق پر بھی چڑھائ کی اور قسام کو شکست دے دی اور خطلج کو امیر شہر بنا دیا۔ قسام نے خود کو گرفتاری کے لیے پیش کیا ،پھر یلتکین نے قسام کو 373ھ/بمطابق 983عیسویٰ کو مصر بھیج دیا جہاں العزیز نے اسے معاف کر دیا۔
حفص پر حمدانی حکمران تھے۔ اور وہاں کے والی بکجور تھے۔ بکجور کے تعلقات حلب کے امیر سعدالدولہ سے خراب ہو گئے تو وہ 373ھ/بمطابق983عیسویٰ میں حلب کی طرف بڑھے لیکن باز نطینی سپہ سالار بردس فوکاس امیر حلب کی مدد کو آ پہنچا۔بکجور وہاں سے راستہ بدل کر مصر کی طرف چلے گئے۔ العزیز باللہ نے بکجور کو دمشق کا حاکم بنا دیا ،لیکن بکجور بھی العزیز کی مخالفت کرنے لگے۔العزیز نے 378ھ/بمطابق988عیسویٰ میں ایک لشکر دمشق بھیجا۔ بکجور امان حاصل کر کے رقہ چلے گئے۔ العزیزنے انہیں معاف کر دیا۔380ھ /بمطابق990عیسویٰ میں بکجور نے العزیز کی حمایت اور انکی مدد نے حلب پر حملہ کیا، لیکن پھر لڑائ میں گرفتار ہوئے اور قتل کر دیے گئے۔ سعد الدولہ نے رقہ پر قبضہ کر لیا،العزیز نے سعد الدولہ کو پیغام دیا کہ بکجور کے بیٹوں کو میرے پاس بھیج دیا جائے،لیکن سعد الدولہ نے اس پیغام کا کوئ خاص جواب نہ دیا۔
اس پر 382ھ/بمطابق 992عیسویٰ میں العزیز نے ایک ترک سپہ سالار منگو تکین کو فوج دے کر حلب روانہ کیا۔اس وقت حلب پر سعد الدولہ کے بیٹے ابو الفضائل حکمران تھے ،انہوں نے سلطنت روم سے مدد طلب کی ۔روم کے بادشاہ نے انطاکیہ کے بازنطینی حاکم البرجی کو حکم دیا کہ وہ ابو الفضائل کی مدد کرے،منگو تکین نے یہ خبر سن کر حلب کا محاصرہ اٹھا لیا۔ اور شمال میں انطاکیہ کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے البرجی کی فوج کوشکست دی۔382ھ/بمطابق992عیسویٰ میں منگو تکین کے ساتھ آنے والے وزیر ابن المغربی نے حلب کے حاکم سے صلح کر لیلیکن العزیز نے اس بات کو پسند نہ کیا۔ابن المغربی کو معزول کر دیا گیااور حلب کا دوبارہ محاصرہ کرنے کا حکم دیا گیا۔حلب والوں نے رومیوں سے پھر مدد مانگی۔ روم کے بادشاہ باسل ثانی خود فوج لے کر آ گیا۔ باسل نے حلب پر فاطمیوں کو قبضہ کرنے سے تو روک دیا لیکن وہ حلب کی گلی کوچوں کی پوری طرح حفاظت نہ کر سکا۔العزیز نے لڑائی تیز کرنے کا فیصلہ کر لیا۔385ھ /بمطابق995عیسویٰ کے اواخر اور 386ھ/بمطابق996عیسویٰ کے اوائل میں فاطمیوں نے زبر دست جنگی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ اور ایک بحری بیڑا بازنطینیوں کے قلعہ انطرطوس کے خلاف روانہ کیا گیا۔ لیکن انتاکیہ سے فوجی کُمک کی وجہ سے یہ قلعہ فتح نہ ہو سکا۔ تاہم حلب کے جنوب میں فاطمیوں کا قبضہ ہو گیا۔اب العزیز بااللہ نے بذات خود فوج کی قیادت کا ارادہ کیا۔386ھ/بمطابق996عیسویٰ میں وہ ایک طاقتور لشکر کے سارتھ قاہرہ سے روانہ ہوئے تاکہ باز نطینی سلطنت سے ٹکر لے سکیں لیکن راستے میں ہی پیامِ اجل آ گیا۔فسطاط سے تقریباً 30میل کے فاصلے پر بلبیس کے مقام پر ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور 28رمضان المبارک 386ھ/بمطابق14اکتوبر996عیسویٰ کو ان کا انتقال ہو گیا۔
تبصرہ کریں